is you Touching the Shameful place ......



شرم گاہ کو چھونے پر وضو کے دہرانے کے سلسلے میں احادیث میں تعارض اور حنفی علماء کی تطبیق

louisiana near me
مختلف فروعاتی مسائل میں اختلاف نہ کوئی نئی بات ہے اورنہ ہی عجیب۔بلکہ یہ صحابہ کرام کے دور سے چلاآرہاہے۔یہ ایک ایسامسئلہ ہے جس میں روایات بھی مختلف ہیں اورصحابہ کرام کا طرز عمل بھی مختلف رہاہے۔لہذا یہ ان مسائل میں سے ہے جس کو کسی پر تھوپنادرست نہیں۔دونوں عمل انشاء اللہ درست ہیں۔یہ اوربات ہے کہ ہرایک نے اپنے اپنے علم کے مطابق کسی کو راجح اورکسی کومرجوح قراردیاہے۔
اس بارے میں دارقطنی نے امام علی بن مدینی اوریحیی بن معین کا دلچسپ مناظرہ نقل کیاہے۔اس مناظرہ کے حکم امام اہل السنۃ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ تھے۔پوراواقعہ یہ ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ النَّقَّاشُ , نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى الْقَاضِي السَّرَخْسِيُّ , نا رَجَاءُ بْنُ مَرْجَاءَ الْحَافِظُ , قَالَ: اجْتَمَعْنَا فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ أَنَا وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ , وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ , وَيَحْيَى بْنُ مَعِينٍ , فَتَنَاظَرُوا فِي مَسِّ الذَّكَرِ , فَقَالَ يَحْيَى: يُتَوَضَّأُ مِنْهُ , وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ بِقَوْلِ الْكُوفِيِّينَ وَتَقَلَّدَ قَوْلَهُمْ , وَاحْتَجَّ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ بِحَدِيثِ بُسْرَةَ بِنْتِ صَفْوَانَ , وَاحْتَجَّ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ [ص:274] بِحَدِيثِ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ , وَقَالَ لِيَحْيَى: كَيْفَ تَتَقَلَّدَ إِسْنَادَ بُسْرَةَ , وَمَرْوَانُ أَرْسَلَ شَرْطِيًّا حَتَّى رَدَّ جَوَابَهَا إِلَيْهِ , فَقَالَ يَحْيَى: وَقَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ فِي قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ وَلَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ , فَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: كِلَا الْأَمْرَيْنِ عَلَى مَا قُلْتُمَا , فَقَالَ يَحْيَى: مَالِكٌ , عَنْ نَافِعٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّهُ تَوَضَّأَ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ» . , فَقَالَ عَلِيُّ: كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَقُولُ: لَا يَتَوَضَّأُ مِنْهُ وَإِنَّمَا هُوَ بَضْعَةٌ مِنْ جَسَدِكَ , فَقَالَ يَحْيَى: عَنْ مَنْ؟ , قَالَ: سُفْيَانُ , عَنْ أَبِي قَيْسٍ , عَنْ هُزَيْلٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , وَإِذَا اجْتَمَعَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَابْنُ عُمَرَ وَاخْتَلَفَا فَابْنُ مَسْعُودٍ أَوْلَى أَنْ يُتَّبَعَ , فَقَالَ لَهُ أَحْمَدُ: نَعَمْ وَلَكِنْ أَبُو قَيْسٍ لَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو نُعَيْمٍ , ثنا مِسْعَرٌ , عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ , قَالَ: «مَا أُبَالِي مَسِسْتُهُ أَوْ أَنْفِي» . فَقَالَ أَحْمَدُ: عَمَّارٌ وَابْنُ عُمَرَ اسْتَوَيَا فَمَنْ شَاءَ أَخَذَ بِهَذَا وَمَنْ شَاءَ أَخَذَ بِهَذَا
سنن دارقطنی۔باب ماروی فی لمس القبل والدبروالذکر1/274
جہاں تک بات نسخ اورتطبیق وغیرہ کی ہے تو اس سلسلے میں جیساکہ علامہ انورشاہ کشمیری نے فیض الباری میں ذکر کیاہے کہ احناف کے یہاں پہلاطریقہ نسخ کاہی ہے 
شافعیہ کے یہاں پہلاطریقہ تطبیق کاہے اوراسی جانب علامہ شبیراحمد عثمانی کابھی رجحان ہے۔(ان کی یہ باتمیں نے ان کی تقریرات پر مشتمل بخاری کی شرح میں پڑھی تھی کتاب کانام فی الوقت یاد نہیں رہا)
ویسے کامن سنس یاعقل عام یہی کہتی ہے کہ اگرکسی حدیث کے بارے میں پختہ طورپر معلوم ہو جائے کہ وہ منسوخ ہے توتطبیق کی جھنجھٹ اورپریشانی کون مول لے گا۔اوراگرپختہ طورپرکسی حدیث کی تنسیخ معلوم نہ ہوتوتطبیق بہترین راستہ ہے۔
احناف اس حدیث کی دوتاویل کرتے ہیں ایک تویہ کہ لغت میں وضوء کے معنی ہاتھ دھونے کے بھی ہیں۔لہذا یہاں بھی ہاتھ دھونے کاحکم دیاہے۔وہ مشہور حدیث بھی یاد کیجئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوکرجاگنے والوں کو تین بار ہاتھ دھونے کاحکم دیاہے اوروجہ یہ بیان کی کہ لایدری این باتت یدہ ۔سونے میں ہاتھ کہاں جاسکتاہے بدن کے حصوں کوکھجاسکتاہے۔ ناک میں انگلی جاسکتی ہے یاپھر شرمگاہ کو مس کرسکتاہے۔تویہاں بھی وضوء سے غسل کے معنی مراد لئے جاسکتے ہیں۔
دوسراقول جوزیادہ بہتر ہے وہ یہ کہ یہ قول استحباب پر مبنی ہے۔یعنی وضوء کا حکم استحباب کاہے یہ امام مالک رحمہ اللہ کابھی قول ہے۔اس قول کے اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اختیار کرنے کے بعد دونوحدیثوں پر عمل ہوجاتاہے حدیث بسرہ پربھی اورحدیث طلق پربھی ۔جب کہ اگرحضرت بسرہ رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ حدیث اختیار کی جائے توحدیث طلق بالکل ہی چھوڑنی پڑتی ہے۔
ویسے تفصیل میں جائیں تویہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے کسی میں صرف فرج کا ذکر ہے کسی میں دبر کابھی ذکر ہے۔کسی میں مس بلاحائل کاذکر ہے۔جب کہ حضرت طلق کی حدیث ان پیچیدگیوں سے خالی ہے۔
مس ذکر سے وضوء نہ ٹوٹنے پر کبارصحابہ کی رائے بھی ہے۔
امام طحاوی لکھتے ہیں۔
فَلَمْ نَعْلَمْ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْتَى بِالْوُضُوءِ مِنْهُ , غَيْرَ ابْنِ عُمَرَ. وَقَدْ خَالَفَهُ فِي ذَلِكَ أَكْثَرُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

شرح معانی لآثار

اس سلسلے کی ایک مزید دلچسپ بحث بھی پڑھیں
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: دَعَانِي وَابْنَ جُرَيْجٍ بَعْضُ أُمَرَائِهِمْ فَسَأَلَنَا عَنْ مَسِّ الذَّكَرِ، فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: «يَتَوَضَّأُ» ، فقُلْتُ: لَا وُضُوءَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا اخْتَلَفْنَا قُلْتُ لِابْنِ جُرَيْجٍ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَضَعَ يَدَهُ عَلَى مَنِيٍّ، فَقَالَ: «يَغْسِلُ يَدَهُ» ، قُلْتُ: فَأَيُّهُمَا أَنْجَسُ الْمَنِيُّ أَوِ الذَّكَرُ؟ قَالَ: «لَا، بَلِ الْمَنِيُّ» قَالَ: فَقُلْتُ: وَكَيْفَ هَذَا؟ قَالَ: «مَا أَلْقَاهَا عَلَى لِسَانِكَ إِلَّا شَيْطَانٌ»
مصنف عبدالرزاق،باب الوضوء من مس الذکر1/120

میں ایک بارپھردوبارہ عرض کردوں ۔دونوں پر عمل کی گنجائش موجود ہے۔
نوٹ:براہ کرم کوئی صاحب اعتراض ورد کامعرکہ نہ شروع کریں۔اورمجھ کوجواب دینے سے معذورتصورکریں۔
جزاک اللہ خیرا۔

0 Comments

Post a Comment