شادی سے فقر دور ہوتا ہے
denver nyc
(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ)(سورۃ النور32)
اور اپنے میں سے بےنکاح مردوں، عورتوں کا نکاح کردو اور اپنے غلاموں اور اپنی لونڈیوں سے جو نیک ہیں ان کا بھی، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورۃ النور کی اس آیت کی تفسیر میں علامہ عبد الرحمن بن ناصر السعدي (المتوفى: 1376ھ) فرماتے ہیں :
"قوله تعالى : (إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ) أي : الأزواج والمتزوجين . (يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) فلا يمنعكم ما تتوهمون من أنه إذا تزوج افتقر بسبب كثرة العائلة ونحوه .
وفيه حث على التزوج ، ووعد للمتزوج بالغنى بعد الفقر .
(وَاللَّهُ وَاسِعٌ) كثير الخير ، عظيم الفضل . (عَلِيمٌ) بمن يستحق فضله الديني والدنيوي أو أحدهما ممن لا يستحق ، فيعطي كلا ما علمه واقتضاه حكمه " انتهى .
وفيه حث على التزوج ، ووعد للمتزوج بالغنى بعد الفقر .
(وَاللَّهُ وَاسِعٌ) كثير الخير ، عظيم الفضل . (عَلِيمٌ) بمن يستحق فضله الديني والدنيوي أو أحدهما ممن لا يستحق ، فيعطي كلا ما علمه واقتضاه حكمه " انتهى .
یعنی علامہ عبدالرحمن السعدی فرماتے ہیں :کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : (ان یکونوا فقراء) ” کہ اگر خاوند اور نکاح کرنے والے تنگ دست ہوئے تو (یغنھم اللہ من فضلہ ) ” تو غنی کر دے گا اللہ ان کو اپنے فضل سے۔ “ پس تمہیں یہ وہم نکاح کرنے سے نہ روک دے کہ جب تم نکاح کرلو گے تو عائلی بوجھ کی وجہ سے محتاج ہوجاؤ گے۔ اس آیت کریمہ میں نکاح کی ترغیب ہے نیز نکاح کرنے والے سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اسے فقر کے بعد فراخی اور خوش حالی حاصل ہوگی۔ (واللہ واسع) یعنی اللہ تعالیٰ بہت زیادہ بھلائی اور فضل عظیم کا مالک ہے۔ (علیم) وہ ان سب کو جانتا ہے جو اس کے دینی اور دنیاوی فضل یا کسی ایک کے مستحق ہیں اور وہ انہیں بھی جانتا ہے جو اس کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ ان سب کو اپنے علم اور اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق عطا کرتا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ :
عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة حق على الله عونهم: المجاهد في سبيل الله، والمكاتب الذي يريد الاداء، والناكح الذي يريد العفاف "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمیوں کی مدد اللہ کے ہاں ثابت ہے ،ایک اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، دوسرا وہ مکاتب غلام جو زر کتابت ادا کرنا چاہتا ہو، اور تیسرا وہ شادی کرنے والا جو پاکدامنی حاصل کرنا چاہتا ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
سنن الترمذی 1655 ، سنن النسائی/الجہاد ۱۲ (۳۱۲۲)، والنکاح ۵ (۳۲۲۰)، سنن ابن ماجہ/العتق ۳ (۲۵۱۸)، (تحفة الأشراف: ۱۳۰۳۹)
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2518)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور جہاں تک عوام الناس میں مشہور اس بات کا تعلق ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی مشکلات کا تذکرہ کیا تو آپ نے اسے کئی نکاح کرنے کا حکم دیا ؛
تو واضح ہو کہ ایسی کوئی روایت ذخیرہ حدیث میں موجود نہیں ،
البتہ فقر و تنگدستی کی شکایت کرنے پر ایک شخص کو ایک نکاح کرنے کا حکم دینے کی روایت موجود ہے ،لیکن وہ بے حد ضعیف ہے ، جسےامام ابوبکر خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے تاریخ بغداد میں روایت کیا ہے ؛
أخبرنا ابن الحسين القطّان قال نبأنا عبد الباقي بن قانع قال نبأنا محمّد بن أحمد ابن نصر الترمذي قال نبأنا إبراهيم بن المنذر قال نبأنا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ قَالَ نبأنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ. قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْكُو إِلَيْهِ الْفَاقَةَ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ
(تاریخ بغداد 1/382 طدار الكتب العلمية – بيروت )
ترجمہ : سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ،اور اپنے فقر وفاقہ کی شکایت کی ،تو آپ ﷺ نے اسے شادی کرنے کا حکم دیا ۔))
یہ حدیث بہت ضعیف ہے ،کیونکہ سعید بن محمد نامی راوی بہت ضعیف ہے ،امام ابن حجر عسقلانیؒ لسان المیزان میں اس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
سعيد بن محمد المدني [أَبُو عثمان]
عن محمد بن المنكدر.
وعنه ابن كاسب وإبراهيم بن المنذر.
قال أبو حاتم: ليس حديثه بشيء.
وقال ابن حبان: لا يجوز أن يحتج به يكنى أبا عثمان.
قلت: حديثه من رواية الحزامي عنه، عَنِ ابن المنكدر، عَن جَابر رضي الله عنه: جاء رجل إلى النبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يشكو الفاقة فأمره أن يتزوج.
عن محمد بن المنكدر.
وعنه ابن كاسب وإبراهيم بن المنذر.
قال أبو حاتم: ليس حديثه بشيء.
وقال ابن حبان: لا يجوز أن يحتج به يكنى أبا عثمان.
قلت: حديثه من رواية الحزامي عنه، عَنِ ابن المنكدر، عَن جَابر رضي الله عنه: جاء رجل إلى النبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يشكو الفاقة فأمره أن يتزوج.
یعنی امام ابوحاتمؒ فرماتے ہیں اس کی حدیث کوئی شیئ نہیں ،
امام ابن حبان فرماتے ہیں :اس کی روایت سے استدلال کرنا جائز ہی نہیں ،
اور امام ذہبیؒ نے بھی "میزان الاعتدال " میں اس کے متعلق یہی لکھا ہے۔
0 Comments
Post a Comment