zina karna taluqat زنا

sharia زنا كے بغير حرام تعلقات كے بعد شادى كرنا 

ايك مرد اور عورت نے آپس ميں غير شرعى تعلقات كے بعد توبہ كر لى اور آپس ميں بوس و كنار كرتے رہے ليكن زنا كى حد تك نہيں پہنچے اس كے بعد شادى كر لى تو كيا يہ شادى جائز ہو گى يا نہيں ؟islamic sharia law


زنا صرف شرمگاہ سے نہیں ہوتا بلکہ زنا ہاتھ سے بھی ہوتا ہے اور وہ ہے کسی اجنبی کو ہاتھ لگانا، آنکھ کا زنا یہ ہے کہ کسی حرام چیز کو دیکھنا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ حد صرف شرمگاہ والے زنا پر ہی لگتی ہے۔
چنانچہ اس بارے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ  : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی نے ہر ابن آدم پر زنا کا کچھ نہ کچھ حصہ لکھ دیا ہے، جو اسے لازمی ملوّث کرے گا، چنانچہ آنکھ کا زنا دیکھنے سے ہوتا ہے، زبان کا زنا بولنے سے ہوتا ہے، دل کا زنا تمنا اور چاہت کرنے سے ہوتا ہے، اور شرمگاہ اس تمام کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے)" بخاری: (5889) مسلم: (2657)
اس لیے کسی بھی مسلمان کو بوس و کنار، خلوت اور ادھر اُدھر نظریں مارنے پر مشتمل زنا کے ابتدائی مراحل کے بارے میں سستی اور کاہلی نہیں برتنی چاہیے، کیونکہ انہی کی وجہ سے انسان زنا میں ملوّث ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا
ترجمہ: زنا کے قریب بھی مت جاؤ، کیونکہ یہ بے حیائی ہےاور برا راستہ ہے۔ [الإسراء : 32]
نظروں کو حرام راستے پر استعمال کرنا شیطان کے کامیاب ترین حملوں میں شمار ہوتا ہے، اس کی وجہ سے انسان ہلاکت و تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے، اگرچہ ابتدا میں برائی کا ارادہ نہ بھی ہو ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے مؤمنین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30) وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ
ترجمہ: مؤمنین سے کہہ دیں کہ: اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کیلئے زیادہ پاکدامنی کا باعث ہے، بیشک اللہ تعالی تمہارے اعمال سے بالکل باخبر ہے [30] اور آپ مؤمن خواتین سے بھی کہہ دیں: اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کریں۔[النور : 30 - 31]
ان آیات پر غور کریں کہ اللہ تعالی نے کس طرح نظروں کی حفاظت کیساتھ شرمگاہ کی حفاظت کو منسلک کیا ہے، اور اس کیلئے شرمگاہ کی حفاظت کا حکم دینے کی بجائے پہلے آنکھوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا؛ کیونکہ نظریں دل کیلئے پیغام لیکر جاتی ہیں۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے ان دو آیات میں مؤمن مرد و خواتین دونوں کو نظریں جھکا کر رکھنے اور شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا؛ صرف اس لیے کہ زنا کا معاملہ بہت ہی سنگین ہے، اس کی وجہ سے مسلمانوں میں پھیلنے والا فساد اور اس کے منفی اثرات بہت دور رس ہوتے ہیں ، ویسے بھی نظروں کو بے لگام چھوڑنے سے دلی بیماریوں کے دروازے کھلتے ہیں، اور انسان گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے، ان گناہوں سے بچنے کیلئے نظروں کی حفاظت بنیادی اکائی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ 
ترجمہ: مؤمنین سے کہہ دیں کہ: اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کیلئے زیادہ پاکدامنی کا باعث ہے، بیشک اللہ تعالی تمہارے اعمال سے بالکل باخبر ہے ۔[النور : 30 ]
اس لیے نظریں جھکا کر رکھنا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنا مؤمن کیلئے دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں پاکیزگی کا باعث ہے، جبکہ نظروں کو بے لگام چھوڑنا اور شرمگاہ کی حفاظت نہ کرنے سے دنیا و آخرت میں سزائیں ملیں گی، اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ فرمائے۔
اسی طرح اللہ تعالی نے آیت کے آخر میں یہ بھی واضح کر دیا کہ اللہ تعالی لوگوں کے ایک ایک کام سے باخبر ہے، اللہ تعالی سے کسی کا کوئی عمل بھی پوشیدہ نہیں ہے، اللہ تعالی کی یہ صفت بیان کر کے اصل میں لوگوں کو گناہوں کے ارتکاب سے خبردار کیا گیا ہے، مبادا شریعت سے رو گردانی نہ کریں، مزید ایک مؤمن کیلئے یاد دہانی بھی ہے کہ اللہ تعالی اس کے ایک ایک اچھے عمل کو جانتا ہے، جیسے کہ ایک اور مقام پر فرمایا:
يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ
اللہ نظروں میں چھپی باتوں اور سینے میں چھپے رازوں سے بھی با خبر ہے۔[غافر : 19]" انتہی
ماخوذ از کتاب: " التبرج و خطره "
چنانچہ مسلمان کو خلوت و جلوت ہر حالت میں اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے، اجنبی خواتین کیساتھ علیحدگی، حرام چیزوں کو دیکھنے ، عورتوں کیساتھ ہاتھ ملانے اور بوس و کنار سمیت زنا کے ابتدائی مراحل اور دیگر اسی طرح کے تمام حرام امور سے اپنے آپ کو دور رکھے۔
گناہ گار شخص اس دھوکے میں مت رہے کہ وہ زنا میں ملوّث نہیں ہوگا، بس انہی ابتدائی مراحل پر ہی اکتفا کریگا، کیونکہ شیطان اسے مزید ورغلاتا رہے گا، اگر چہ صرف بوس و کنار کی وجہ سے زنا والی حد لاگو نہیں ہوتی، لیکن حکمران اس قسم کے گناہوں سے باز رکھنے کیلئے تعزیری سزا دے سکتا ہے۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تعزیری سزا ان تمام گناہوں میں دی جا سکتی ہے جس کا کوئی کفارہ یا حد نہیں ہے؛ کیونکہ اس اعتبار سے گناہوں کی تین اقسام ہیں:
1- ایسا گناہ جس میں حد تو ہے لیکن کفارہ نہیں ہے
2-جس میں کفارہ ہے حد نہیں ہے
3- جس میں کفارہ اور حد دونوں نہیں ہیں
پہلی کی مثال: چوری، شراب نوشی، زنا، اور تہمت
دوسری کی مثال: رمضان میں دن کے وقت جماع، احرام کی حالت میں جماع ہے
تیسری کی مثال: کسی ایسی لونڈی سے جماع کرنا جس میں کوئی اور مرد بھی شریک مالک ہو، کسی اجنبی عورت کو بوسہ دینا، عوامی حمام میں زیر جامہ کے بغیر داخل ہونا، مردار ، خون، سور کا گوشت کھانا وغیرہ" انتہی
ماخوذ از: " إعلام الموقعین " ( 2 / 77 )
اگر کوئی شخص ایسے امور میں ملوّث ہو چکا ہے تو وہ اللہ تعالی سے سچی توبہ کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے، اور جو توبہ کر لے وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا۔
اس قسم کے گناہوں کا کفارہ بننے کیلئے پانچوں نمازوں کی پابندی جیسا کوئی نیک عمل نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (پانچوں نمازیں، جمعہ سے جمعہ تک، رمضان سے رمضان تک  درمیان میں آنے والے گناہوں کا کفارہ ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے) مسلم: (1/209)

زانيہ عورت يا زانى مرد كا نكاح اس وقت تك صحيح نہيں جب تك وہ توبہ نہ كر لے، اور اگر عورت يا مرد توبہ نہيں كرتا تو اس كا نكاح صحيح نہيں ہوگا.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
" زانى مرد سوائے زانيہ عورت كے يا مشركہ عورت كے كسى اور سے نكاح نہيں كرتا، اور زانيہ عورت زانى مرد يا مشرك كے علاوہ كسى اور سے نكاح نہيں كرتى، اور ايمان والوں پر يہ حرام كر ديا گيا ہے "النور ( 3 ).
اس آيت كا سبب نزول اس حكم كو اور بھى زيادہ واضح كر ديتا ہے سنن ابو داود ميں عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
مرثد بن ابو مرثد غنوى رضى اللہ تعالى عنہ مكہ سے قيديوں كو اٹھا كر لايا كرتے تھے، اور مكہ ميں ايك بدكار اور زانيہ عورت تھى جس كا نام عناق تھا، وہ ان كى دوست تھى.
وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كى اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ميں عناق سے شادى كر لوں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خاموشى اختيار كى چنانچہ يہ آيت نازل ہوئى:
" اور زانى عورت سوائے زانى يا مشرك مرد كے كسى اور سے نكاح نہيں كرتى "
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے بلا كر ميرے سامنے يہ آيت تلاوت فرمائى اور كہنے لگے: تم اس سے نكاح مت كرو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2051 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
سنن ابو داود كى شرح " عون المعبود " ميں لكھا ہے:
" اس ميں دليل ہے كہ كسى بھى شخص كے ليے ايسى عورت سے نكاح كرنا جائز نہيں جس سے زنا كا اظہار ہو چكا ہو، اور اس كى دليل مندرجہ بالا حديث ميں اس آيت كا ذكر ہے جس آيت كے آخر ميں يہ بيان كيا گيا ہے كہ:
" اور يہ مومنوں پر حرام كر ديا گيا ہے "
تو يہ حرمت ميں صريح ہے " انتہى
سعدى رحمہ اللہ اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:
" يہ زنا كى گندگى كا بيان ہے كہ زنا زانى شخص كو بھى ذليل كر كے ركھ ديتا ہے، اور جو شخص زنا كرے اس كى عزت كو خاك ميں ملا ديتا ہے، اور يہ ايك ايسى سزا ہے جو كسى اور گناہ كى نہيں، بتايا يہ گيا ہے كہ زانى مرد صرف زانى عورت سے ہى نكاح كرتا ہے جو اس كى حالت كے مناسب ہوتى ہے، يا پھر مشركہ عورت سے جو نہ تو قيامت پر ايمان ركھتى ہے اور نہ ہے سزا اور بدلہ پر اور نہ ہى اللہ كے امور كى پاسدارى كرتے ہوئے اللہ كے احكام پر عمل كرتى ہے.
اور زانيہ عورت بھى اسى طرح زانى يا مشرك مرد كے علاوہ كسى اور سے نكاح نہيں كرتى:
" اور مومنوں پر يہ حرام كر ديا گيا ہے "
يعنى مومنوں پر حرام ہے كہ وہ زانى مرد يا پھر زانى عورت سے نكاح كريں.
اور آيت كا معنى ہے كہ:
جو مرد يا عورت بھى زناكارى كرتا ہو اور اس سے توبہ نہ كرے اور نكاح حرام ہونے كے باوجود نكاح كر لے تو پھر يا تو وہ اللہ اور اس كے رسول كے احكام كا پابند نہيں ہے تو يہ مشرك كے علاوہ كوئى اور نہيں كر سكتا، يا پھر وہ اللہ اور اس كے احكام كى پابندى كرتا ہے اور اس كے زانى كا علم ہونے كے باوجود وہ اس سے نكاح كر رہا ہے تو يہ نكاح زنا ہے، اور زانى سے نكاح كرنے والا بدكار ہے، كيونكہ اگر وہ حقيقى مومن تو ايسا نہ كرتا.
اور زانى عورت سے نكاح حرام ہونے كى يہ واضح دليل ہے جب تك وہ توبہ نہيں كرتى اس سے نكاح حرام ہے، اور اسى طرح زانى مرد سے بھى جب تك وہ توبہ نہ كرے نكاح كرنا حرام ہے كيونكہ خاوند كا اس كى بيوى اور بيوى كا اس كے خاوند سے مقارنہ اور ملاپ تو سب سے شديد ملاپ ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
ان لوگوں كو اكٹھا كرو جنہوں نے ظلم كيا اور ان كے دوستوں كو بھى يعنى ان كے قرينوں كو، چنانچہ اللہ عزوجل نے اسے اس ليے حرام كيا ہے كہ اس ميں بہت عظيم قسم كا شر پايا جاتا ہے اور پھر اس ميں قلت غيرت بھى ہے، اور اولاد كى نسبت بھى جو كہ خاوند نہ تھے، اور پھر زانى تو اپنى بيوى كى عفت و عصمت كا خيال نہيں كريگا كيونكہ وہ تو خود كسى دوسرے سے تعلق ركھتا ہے " انتہى
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى اس آيت كى تفسير ميں ايسے ہى كہا ہے:
" جو شخص زانيہ عورت سے نكاح كى حرمت كا اعتقاد ركھنے كے باوجود زانيہ سے نكاح كرے تو اس نے حرام عقد نكاح كيا كيونكہ وہ اس كے حرام ہونے كا اعتقاد ركھتا تھا، اور حرام عقد نكاح بالكل ايسے ہى ہے جيسے ہوا ہى نہيں، اس ليے اس كو بيوى سے مباشرت كرنا اور ميل ملاپ وغيرہ كرنا حلال نہيں تو اس حالت ميں يہ شخص زانى ہو گا.
ليكن اگر وہ زانى عورت سے نكاح كرنے كى حرمت كا انكار كرتا ہو اور اسے حلال كہے تو يہ شخص اس حالت ميں مشرك ہو گا، كيونكہ اس نے اللہ تعالى كى جانب سے حرام كردہ چيز كو حلال كيا ہے، اور اس نے اپنے آپ كو اللہ كے ساتھ شرع بنانے والا قرار ديا ہے، اور جو شخص اپنى بيٹى كا نكاح كسى زانى مرد سے كرتا ہے اس كے بارہ ميں بھى ہم يہى كہتے ہيں.
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ جمع و ترتيب اشرف عبد المقصود ( 2 / 698 ).
اور شيخ محمد بن ابراہيم اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كى سرابراہى ميں مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا فتوى بھى يہى ہے ( يعنى زانى عورت سے نكاح كى حرمت كا ).
ديكھيں: فتاوى محمد بن ابراہيم ( 10 / 135 ) اور فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 383 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب اللہ سبحانہ و تعالى نے زانيوں كى سزا كا حكم ديا تو مومون پر ان سے نكاح كرنا حرام كر ديا، تا كہ ان سے بائيكاٹ ہو اور اس وجہ سے كہ ان ميں جو گناہ اور برائياں پائى جاتى ہيں... تو اللہ سبحانہ وتعالى نے بتايا كہ ايسا تو صرف وہى كرتا ہے جو خود زانى ہو يا پھر مشرك.
كيونكہ مشرك ميں تو ايمان ہى نہيں جو اسے فحاشى اور بدكارى سے اور بدكار سے مجامعت ميں مانع ہو.
اور زانى شخص كا فسق و فجور اسے اس بدكارى كى دعوت ديتا ہے چاہے وہ مشرك نہيں بھى ہے....
اور اللہ عزوجل نے حكم ديا ہے كہ برائى اور برے لوگوں سے كنارہ كشى اختيار كى جائے جب تك وہ اپنى اس بدكارى پر قائم ہيں اور يہى چيز زنا ميں بھى پائى جاتى ہے..
اور اللہ سبحانہ و تعالى نے مردوں ميں يہ لگائى ہے كہ وہ عفت و عصمت والے ہوں خفيہ دوستياں اور بدكارى كرنے والے نہ ہوں چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:
" اور ان ( عورتوں ) كے علاوہ دوسرى عورتيں تمہارے ليے حلال كى ہيں يہ كہ تم انہيں مہر دو اور عفت و عصمت اختيار كرنے والے ہو نہ كہ بدكارى كرنے والے "
اور يہ ايسا معنى ہے جس سے غافل نہيں رہنا چاہيے؛ كيونكہ قرآن مجيد بالنص اسے بيان كيا اور فرض كيا ہے.
رہا مسئلہ زانيہ عورت كے نكاح كا تو حنبلى فقھاء اور دوسروں ميں اس ميں بات كى اور اس ميں سلف كے آثار بھى ملتے ہيں چاہے فقھاء كا اس ميں تنازع اور اختلاف ہے ليكن اس كے باوجود جو اسے مباح قرار ديتا ہے اس كے پاس كوئى ايسى دليل نہيں جس پر اعتماد كيا جا سكے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 15 / 316 ).
اور ايك جگہ بيان كيا كہ:
" زانيہ عورت كا نكاح اس وقت تك حرام ہے جب تك وہ توبہ نہ كر لے، چاہے اس سے ہو جس نے اس سے زنا كيا يا كسى اور سے، بلاشك و شبہ يہى صحيح ہے، اور سلف اور خلف ميں سے ايك گروہ كا مسلك بھى يہى ہے جن ميں امام احمد رحمہ اللہ وغيرہ شامل ہيں...
اور كتاب و سنت اور متعبر دلائل بھى اسى پر دلالت كرتے ہيں، اور اس ميں سب سے مشہور سورۃ النور كى يہ آيت ہے جس ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
" زانى مرد زانيہ يا مشركہ عورت كے علاوہ كسى اور سے نكاح نہيں كرتا، اور زانى عورت زانى يا مشرك مرد كے علاوہ كسى اور سے نكاح نہيں كرتى، اور يہ مومنوں پر حرام كر ديا گيا ہے "
اور سنت نبويہ ميں اس كى دليل ابو مرثد غنوى رضى اللہ تعالى عنہ كى عنقا كے متعلق حديث ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 110 ).
اور جو شخص اس ميں مبتلا ہو جائے اور توبہ كرنے اور اپنے اس جرم پر نادم ہونے اور آئندہ اس جرم كى طرف كبھى واپس نہ پلٹنے كا عزم كيے بغير نكاح كر لے تو اسے توبہ كرنے كے بعد يہ نكاح دوبارہ كرنا ہو گا.
میرے مسلمان بھائي اللہ تعالی آپ کواپنے ایمان چھن جانے کی تکلیف پر صبر سے نوازے جسے آپ نے زنا کرتے وقت کھودیا تھا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے :
( زانی جب زنا کررہا ہوتا ہے تو وہ زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا ، اورشرابی جب شراب نوشی کرتا ہے وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا ، اورچوری کے وقت چوربھی مومن نہیں رہتا ، اورنہ ہی چھیننے اورلوٹنے والا لوٹتے وقت مومن ہوتا ہے جس لوٹننے کی بنا پرلوگ اس کی طرف نظریں اٹھا کردیکھتے ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2475 ) ۔
کیا آپ کے سامنےکتاب اللہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان نہیں گزرا:
 اورزنا کے قریب بھی نہ پھٹکو بلاشبہ یہ فحش کام اور بہت ہی برا راستہ ہے  الاسراء ( 32 ) ۔
کیا آپ جانتے نہيں کہ آپ جہاں بھی ہوں اللہ سبحانہ وتعالی آپ کودیکھ رہا ہے ۔۔۔۔ اوراگر بات کریں تو وہ سن رہا ہے ؟
کیا آپ اپنے اوپر اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں کویادنہیں کرتے ۔۔ جب آپ بیمار ہوں تووہی شفا دینے والا ہے ، اورجب بھوک لگے تووہی کھلانے والا ہے ، وہی ہے جوپیاس لگنے پر آپ کوپانی پلاتا ہے ، اوراس نے آپ کواس نعمت اسلام سے نوازا ہے جولوگوں پر سب سے عظیم نعمت ہے ، توکیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟
میرے بھائي اپنے آپ میں غور فکر کرو ، کس کی بادشاہی میں زندگی بسر کررہے ہو ؟ ۔۔۔ کس کا رزق کھاتے ہو ؟ ۔۔۔ کس کے حکم سے زندہ ہو؟ ۔۔۔
کیا بادشاہی اللہ تعالی کی نہيں ؟ کیا رزق اللہ تعالی کا نہیں ؟ ۔۔۔ کیا اللہ تعالی کا حکم نہيں ؟ ۔۔۔ توپھر آپ اللہ تعالی کی نافرمانی کس طرح کررہے ہيں ؟
شائد کہ آپ اس ‏عظیم حدیث سے بھی غافل ہیں جو کہ حدیث معراج کے نام سے پہچانی جاتی ہے اورجس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مذکور ہے کہ :
( پھر ہم آگے چلے توایک تنور جیسی عمارت کے پاس پہنچے ، راوی کہتے ہيں کہ مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس تنور میں سے شور وغوغا اورآوازيں سنائي دے رہی تھیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم نے اس تنور میں جھانکا تواندر مرد وعورتیں سب ننگے تھے ، اوران کے نیچے سے آگ کے شعلے رہے تھے اورجب وہ شعلے آتے وہ لوگ شوروغوغا اورآہ و بکا کرتے میں نے ان ( فرشتوں ) سے سوال کیا یہ کون ہيں ؟
انہوں نے مجھے جواب دیا چليں آگے چلیں ۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے انہیں کہا کہ میں آج رات بہت عجیب چيزیں دیکھی ہيں تویہ سب کچھ کیا ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہيں :
ان فرشتوں نے مجھے کہا کہ ہم آپ کوسب کچھ بتائيں گے ۔۔۔۔ اوروہ مرد اور عورتیں جوتنورمیں بے لباس تھے وہ سب زانی مرد وعورتیں تھیں ) صحیح بخاری باب اثم الزناۃ حدیث نمبر ( 7047 ) ۔
اس لیے میرے بھائی آپ جتنی جلدی ہوسکے موت آنے سے قبل ہی سچی اورخالص توبہ کرلیں ، اس لیے کہ مغرب کی جانب سے سورج طلوع ہونے تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے ، یا پھرجب روح حلق تک آجاۓ اورغرغرہ شروع ہونے تک توبہ ہوسکتی ہے ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی بندے کی توبہ سے بہت زيادہ خوش ہوتا ہے اوراس کے گناہوں اورمعصیت کونیکیوں میں بدل ڈالتا ہے ۔
اللہ تعالی نے اسی کے بارہ میں کچھ اس طرح فرمایا جس کا ترجہ ہے :
{ اوروہ لوگ جواللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔
اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا اوروہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا ، سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کریں اورایمان لائيں اورنیک وصالح اعمال کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اوراللہ تعالی بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا ہے ، اورجوتوبہ کرلے اوراعمال صالحہ کرے توبلا شبہ وہ حقیقتااللہ تعالی کی طرف سچی توبہ اوررجوع کرتا ہے } الفرقان ( 68 – 71 ) ۔
دوم :
آپ کا یہ کہنا کہ کیا مجھ پر ضروری ہے کہ میں اس عورت سے شادی کرلوں ؟
اس مسئلہ ( زانی کا زانیہ سے نکاح ) کا جواب یہ ہے کہ :
زانی مرد کا زانیہ عورت سے شادی کرناجائز نہیں ہے اورنہ ہی وہ عورت اس مرد سے شادی کرسکتی ہے صرف ایک صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ جب دونوں توبہ کرلیں توان کی شادی ہوسکتی ہے ۔
اس لیے آپ اس عورت سے نکاح نہیں کرسکتے اگرچہ وہ عورت یھودی یا عیسائي ہی کیوں نہ ہو ، اوراگر مسلمان بھی ہوپھر بھی نکاح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ زانیہ ہے اورنہ ہی اس عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ آپ کوبطور خاوند قبول کرے اس لیے کہ آپ زانی ہيں ۔
فرمان باری تعالی کچھ اس طرح ہے :
 زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتا ، اورزانیہ عورت بھی زانی یا پھرمشرک مرد کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتی اورایمان والوں پر حرام کردیا گيا ہے  النور ( 3 ) ۔
اوراس آیت میں اللہ تعالی نے جویہ فرمایا ہے کہ  اورایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے  اس نکاح کے حرام ہونے کی دلیل ہے ۔
لھذا آپ دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ آپ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اوراس گناہ کوترک کرتے ہوۓ جوفحش کام آپ سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اوراس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کودوبارہ نہيں کريں گے ۔
اوراس کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ کثرت کے ساتھ کریں ہوسکتا ہے اللہ تعالی آپ کی توبہ قبول کرے اورآپ کے سب گناہوں کونیکیوں سے بدل ڈالے اسی کے بارہ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
{ اوروہ لوگ جواللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔
اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا اوروہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا ، سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کریں اورایمان لائيں اورنیک وصالح اعمال کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اوراللہ تعالی بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا ہے ، اورجوتوبہ کرلے اوراعمال صالحہ کرے توبلا شبہ وہ حقیقتااللہ تعالی کی طرف سچی توبہ اوررجوع کرتا ہے } الفرقان ( 68 – 71 ) ۔
اورتوبہ کے بعد اگر آپ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تونکاح سے قبل آپ پرضروری اورواجب ہے کہ اس کا ایک حیض کے ساتھ استبراء رحم کریں ، اوراگر حمل ظاہر ہوجاۓ توپھر آپ حدیث پرعمل کرتے ہوۓ اس حالت میں اس سے نکاح نہیں کرسکتے جب وضع حمل ہوجاۓ توآپ نکاح کرسکتے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ انسان کسی دوسرے کی کھیتی کوسیراب کرتا پھرے ۔ ا ھـ
دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ بحوالہ مجلۃ البحوث الاسلامیۃ ( 9 / 72 ) ۔
سوم :
آپ کا یہ کہنا کہ : " تا کہ بچہ والد کوحاصل کرسکے جو اسے اپنانام اورپہچان دے سکے " ۔
مسئلہ یہ ہے کہ ولد زنا کس سے منسوب ہوگا ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ :
جمہور علماء کرام کے نزدیک ولد زنا کوزانی کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( بچہ بستر والے ( یعنی خاوند) کا ہے اورزانی کے لیے پتھر ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2053 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1457 ) دیکھیں المغنی لابن قدامۃ مقدسی ( 7 / 129 ) ۔
چہارم :
آپ کا یہ کہنا کہ : " میں بہتر سمجھتا ہوں کہ عورت اس حمل سے چھٹکارا حاصل کرلے "
یہ مسئلہ اسقاط حمل ہے اوراس کے حکم میں ہم کبار علماء کمیٹی کا فیصلہ نقل کرتے ہیں یہ فیصلہ نمبر 140 ( 20 / 6 / 1407 ھـ ) کوہوا :
1 - حمل کے مختلف مراحل میں اسقاط جا‏ئز نہيں ، لیکن اگر کوئي شرعی مبرر ہواوروہ بھی بہت ہی تنگ حدود میں رہتے ہوۓ ۔
2 - اگر حمل پہلے مرحلہ یعنی چالیس یوم کی مدت تک کا ہواور اس کے اسقاط میں کوئي شرعی مصلحت یا پھرکوئي ضرر لاحق ہونے کا خدشہ ہوتو اسقاط حمل جائز ہے ۔
لیکن اس مدت میں صرف اولاد کی تربیت میں مشقت کے ڈرسے یا پھر ان کی تعلیم اورمعیشت و رزق کی تنگی یا ان کے مستقبل یا والدین کے پاس موجود بچے ہی کافی ہونے کی بنا پر اسقاط کرایا جاۓ تواس حالت میں جائز نہیں ۔
3 - جب حمل خون کا لوتھڑا یا پھر گوشت کی شکل اختیار کرچکا ہو اسقاط حمل جائزنہيں لیکن اگر اس کے سپیشلسٹ اورتجربہ کار ڈاکٹروں کا میڈیکل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ اس حمل کا رہنا ماں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اوراگریہ حمل ساقط نہ کیا گیا توماں کی ھلاکت ہوجاۓ گی تواس حالت میں اسقاط جائز ہے لیکن اس حالت میں بھی اسقاط سے قبل خطرات کی تلافی کے لیے سب وسائل بروۓ کار لانے ضروری ہیں اگر اس میں ناکام ہوں توپھر اسقاط کرانا جائز ہے ۔
تیسرے مرحلہ اورحمل کی مدت چارمہینے مکمل ہونے کے بعد آپ کے لیے اسقاط حمل جائز نہیں لیکن اگرتجربہ کار اورسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا میڈیکل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ بچے کا ماں کے پیٹ میں رہنا اس کی موت کا سبب بن سکتا ہے ۔
لیکن اس حالت میں بھی اسقاط سے قبل ماں کی زندگی کے لیے تمام وسائل کوبروۓ کار لاۓ جانے کے بعد اگر اسقاط کی ضرورت پیش آۓ توپھر جائز ہے ، اس کی اجازت بھی اس لیے دی گئي ہے کہ دو ضرورں میں سے بڑے ضرورسے بچنے اوردومصلحتوں میں سے بڑی مصلحت حاصل کی جاسکے ۔ ا ھـ
الفتاوی الجامعۃ ( 3 / 1055 ) سے نقل کیا گیا ہے ۔
ہم اللہ تعالی سے سلامتی وعافیت کے طلبگار ہیں اوردعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری توبہ قبول فرماۓ ۔
اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پررحمتیں نازل فرماۓ آمین یا رب العالیمن ۔
واللہ اعلم .

0 Comments

Post a Comment